حضرت ابو بکر صدیق 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ تھے آغاز بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے تھے ۔ وہ واحد شخص تھے جہنیں حضور ﷺ بطور خاص اپنے رفیق ہجرت کے طور پر منتخب کیا اور اللہ تعالی نے انہیں اپنی کتاب مقدس میں 

ثانی اثنین کہا۔

عمر رض کہا کرتے تھے ، کہ میری ساری عمر کی نیکیاں ابوبکر رض  کی  غارثور کی ایک نیکی کے برابر نہیں ، مدینہ میں مسجد نبوی کے لیے زمین کی قیمت بھی حضرت ابوبکر رضی ہی نے اپنے مال سے ادا کی تھی اور غزوہ تبوک کی تیاری کے وقت اپنے گھر کا تمام مال و متاع لا کر حضور ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیاتھا۔ 

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

ان کی خدمت جانثاری اور اخلاص فی الاسلام کا اعتراف خود رسولﷺ نے معتدد مواقع پر فرمایا۔

ابوبکررضی کےمال سے مجھے سب سے زیادہ فائدہ پہنچا۔

میں نے سب کے احسانوں کا بدلہ چکا دیا۔ مگر ابوبکر رض کا احسان مجھ پر باقی ہے 

اگر میں اللہ تعالی کے سوا انسانوں میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رض کو بناتا۔

اللہ تعالی اور مومنین ابوبکر رضی کی امارت کے سوا کسی دوسرے کی امارت کو قبول نہیں کرینگے۔ 

ابن سیرین رح کا قول ہے 

رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رض ایک خمیر سے پیدا ہوئے تھے ۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنی آخری علالت میں تاکیدا ابوبکر رضی کو نماز کا امام مقرر کیا۔ اور خود بھی ان کی امامت میں نماز قائم کی 

حضور ﷺ کے اپنی زندگی میں ابوبکر رضی کو پہلا امیر الحج مقرر کیا۔ 

حضرت عمر فاروق رض

 عشرہ مبشرہ میں دوسرا نمبر فاروق اعظم رض کا تھاآپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول فرمایاتو مسلمانوں کو قوت ملی ۔ پہلی مرتبہ حرم کعبہ میں مسلمانوں نے اعلانیہ نماز پڑھی ۔ حضرت کے سامنے کسی کافر کی مجال نہ تھی کہ کسی مسلمان کو تکلیف پہنچائے ۔ قرآن پاک میں حرمت شراب کی آیا ت آپ کی خواہش پر نازل ہوئیں اور اور پردے کابھی آپﷺکےباربار آسمان کی طرف منہ ا ٹھا کردعا کرنے سے نازل ہوا-ابوبکر رض نے امت مسلمہ پر سب سے بڑا احسان یہ کیا عمر بن خطا ب کو آپنا جانشین نامزد کیا ۔ لہزا آپ رضہ اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ہیں تاریخ انسانی کے صفحات میں امن عدل مساوات اور اخوت کے روشن باب کا آپ نے ہی اضافہ کیا۔ حق وباطل کھوٹے اور کھرے کو الگ کر دیا دیکھایا ۔قیصرہ کسری کے ایوانوں میں زلزلے ڈال دیئے ۔ دنیا کے جو رواستبدار سے نجات دلائی ۔ یہی وہ بشر تھا جو قیصرو کسری کے خزانے نے لوگوں میں بانٹنا تھا اور بغیر کسی محافظ کے مسجد کے ننگے فرش پر اینٹوں کا تکیہ بنا کر سور ہتا تھا۔ رعب و ادب کا یہ عالم کے سینکڑوں میل دور بیٹھے کوفہ بصرہ کے گورنر تھر تھر کانپتے تھے مدینہ کے خواص و عام آپکے احتساب سے خائف رہتے تھے

ارشار نبوی ﷺ ہے۔

میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضہ ہوتا،

عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں۔ 

اگر دنیا کا علم ترازوکے ایک پلڑے میں اور عمر رضہ کا دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمر رض کا پلڑا بھاری ہوگا۔۔

حضرت علی رض کا قول ہے ۔ عمر کی زبان پر سکینہ بولتا ہے وہ قوی وامین ہیں

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here