ایک صبح ایک گاؤں کے بزرگ نے اپنے پاس بیٹھے بچّے کو ایک ٹیڑھی اور زنگ آلود چابی پکڑائی۔ بچّے نے اُٹھاتے ہی پوچھا. یہ توڑی ہوئی چابی کس کام کی؟ بزرگ نے آنکھوں میں چمک لاتے ہوئے کہا.یہ وہ چابی ہے جو بظاہر کسی تالے میں نہیں لگتی، مگر اس کا راز تمہیں تب پتا چلے گا جب تم اسے کھونے کی بجائے پہچاننے کی کوشش کروگے۔  

بچّے نے چابی کو غور سے دیکھا.مگر یہ تو مڑی ہوئی ہے. بزرگ ہنس پڑےہر ٹیڑھاپن کسی نہ کسی سیدھے راستے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کل جب تم نے یہ چابی دروازے کے تالے میں ڈالی تھی، تو وہ نہ کھلا۔ مگر کیا تم نے کبھی اُس پرانے صندوق کو آزمایا جو کھجور کے درخت کے نیچے دبایا ہوا ہے؟  

بچّے نے دوڑ کر صندوق لا رکھا۔ چابی ٹیڑھی ہونے کے باوجود صندوق کے پرانے تالے میں فٹ ہوگئی اندر سے خشک بیج اور ایک پرانا خط نکلا۔ خط میں لکھا تھا.جو بیج بظاہر بے جان لگتے ہیں، اُنہیں مٹی اور وقت دے دو تو وہی تیرے سوالوں کے جواب بن جائیں گے۔ بچّے نے بیج بوئے۔ ہفتوں بعد جب پودے پھوٹے تو اُن میں سے ایک کے پتے پر خط کے الفاظ اُگے تھے”صبر کا پھل وہی چکھتا ہے جو ناکامی کو ایک سوال سمجھتا ہے، جواب نہیں۔ 

آج وہ چابی گاؤں کے ہر بچّے کے ہاتھ میں ایک نشانی ہے۔ بزرگ کہتے ہیں.دنیا کا ہر تالا کوئی نہ کوئی چابی مانگتا ہےمگر کبھی چابی تالے سے نہیں تالے والے دروازے سے ملتی ہے۔ ہماری ناکامیاں دراصل اُس دروازے تک پہنچاتی ہیں جو ہم نے کبھی دیکھا تک نہیں ہوتا۔  

یہ کہانی اُس اصول کو دہراتی ہے کہ زندگی کے سب سے گہرے راز اکثر اُن چیزوں میں چُھپے ہوتے ہیں جنہیں ہم ناقص سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ اصل کام نظر بدلنے کا ہے چیز کو نہیں۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here