“ایمانداری کی قیمت”
علی ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ اس کی زندگی مشکلوں سے بھری تھی۔ وہ دن بھر کھیتوں میں مزدوری کرتا اور رات کو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ غربت نے اسے جکڑ رکھا تھا۔
ایک دن کام سے واپسی پر اسے راستے میں ایک چمکتا ہوا بٹوا ملا۔ اس نے جلدی سے اسے اٹھایا اور کھول کر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ بٹوے میں موٹی رقم رکھی تھی، جو شاید کسی امیر آدمی کی تھی۔ کاشف کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ اس رقم سے وہ اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھا سکتا تھا، گھر کے حالات بہتر کر سکتا تھا، اور شاید ایک نئی زندگی شروع کر سکتا تھا۔
لیکن اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ یہ رقم میری محنت کی کمائی نہیں، اگر میں نے اسے رکھ لیا تو کیا میں اپنے بچوں کو ایمانداری کا سبق دے سکوں گا؟
یہ سوچتے ہی وہ بٹوے میں موجود شناختی کارڈ کے ذریعے مالک کا پتہ معلوم کرنے نکلا۔ کچھ دیر بعد، وہ ایک بڑے بنگلے کے سامنے کھڑا تھا۔ دروازہ کھٹکھٹانے پر ایک بوڑھا شخص باہر آیا۔ کاشف نے بٹوا اس کے حوالے کیا۔
بوڑھے کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔ وہ بولا، بیٹا! میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے میرا بٹوا واپس ملے گا۔ آج کے زمانے میں تم جیسے ایماندار لوگ بہت کم ہیں۔
بوڑھے شخص نے خوش ہو کر علی کو بطور انعام کچھ رقم دینا چاہی، مگر علی نے مسکرا کر کہا، میں نے یہ بٹوا کسی انعام کے لیے واپس نہیں کیا، بلکہ اس لیے کہ یہ میرا فرض تھا۔
بوڑھا شخص علی کی ایمانداری سے اتنا متاثر ہوا کہ اسے اپنی کمپنی میں اچھی نوکری دے دی۔ علی کی محنت اور سچائی نے اس کی تقدیر بدل دی۔
سبق
لالچ وقتی فائدہ دے سکتا ہے مگر ایمانداری ہمیشہ عزت اعتماد اور کامیابی کا راستہ کھولتی ہے۔