وہ انسان روح کے ویرانے سے نکل نہیں سکتا جس نے ماں باپ کا ادب نہ کیا اورجس کو اولاد سے پیار نہ ہو ۔
زندگی کے بہتر دور کے بارے میں لوگوں سے پوچھیں تو جواب ملے گا کہ اچھا زمانہ یا گزر چکاہے یا ابھی آیا ہی نہیں ۔حالانکہ اچھا دور وہ ہے جو آج گزر رہا ہے۔
خواب کی اونچی اڑانیں بیان کرنے سے زندگی کی پستیا ں ختم نہیں ہوتیں۔
زندگی ایک سایہ دار درخت ہے جس کو سانس کی آری مسلسل کاٹ رہی ہے نہ جانے کب کیا ہو جائے ۔
اللہ سے وہ چیز مانگیں جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت دقت نہ ہو ۔ اللہ سے مانگی ہوئی نعمت اللہ کے لیے وقف ہی رہنے دیں چاہے وہ زندگی ہی کیوں نہ ہو ۔
جس آدمی کے پاس دین کی راہ پر چلنے کے لیے نہ وقت ہے نہ مزاج وہ اپنی ناکامی کے بارے میں اور کیا کہہ سکتا ہے
سورج دور ہے لیکن دھوپ قریب ۔
انسان اپنی ملکیت کی ملکیت بن کر رہ گیا ہے ۔انسان اپنے آپ کو محفوظ کرتے کرتے غیر محفوظ ہو جاتا ہے خطرہ انسان کے اپنے اندر ہے سانس اندر سے اکھڑتی ہے
اللہ کو راضی کرنے سے پہلے یہ ضرور تحقیق کرلیں کہ وہ ناراض ہے بھی کہ نہیں ۔اس کے ناراض ہونے کی اطلاع دینے والے کو ضرور راضی کرو۔
یہی زندگی دنیاوی ہے یہی دینی اور یہی روحانی ۔ہمارا خیال بدل جائے تو ہماری زندگی کا نام ہی بدل جاتا ہے ۔
حرام مال اکٹھا کرنے والا اگر بخیل بھی ہے تو اس پر دوہرا عذاب ہے
توبہ منظور ہو جائے تو وہ گناہ دوبارہ کھبی سرزو نہیں ہوسکتا ۔
اگر آرزو ہی غلط ہو تو حسرت ارزو تکمیل آرزو سے بہت بہتر ہے
گناہ کسی بدی کے ہو جانے کا نام ہے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان ان ارادوں کے پورا نہ ہونے کا بھی شکر ادا کرتا ہے جو غلط تھے