ایک گاؤں میں رحیم نام کا ایک تاجر رہتا تھا۔ وہ بہت مہمان نواز اور ایماندار تھا لیکن ایک دن اسے کاروباری سفر پر جانا پڑا۔ راستے میں وہ گہرے جنگل میں بھٹک گیا۔ ہر طرف تاریکی چھا گئی اور اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اچانک اسے دور ایک چراغ کی روشنی دکھائی دی۔ امید کی کرن دیکھ کر وہ اس طرف بڑھا۔ وہاں ایک بوڑھا شخص جھونپڑی میں بیٹھا تھا۔ رحیم نے مدد مانگی اور بوڑھے نے اسے پناہ دی۔
صبح ہوتے ہی رحیم نے بوڑھے کا شکریہ ادا کیا اور کہا آپ نے میری جان بچائی ہے۔ میں آپ کو انعام دینا چاہتا ہوں۔ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا پیارے بچے میں زر کی خواہش نہیں رکھتا۔ اگر تم واقعی مجھے خوش کرنا چاہتے ہو تو اپنی زندگی میں دوسروں کی مدد کرنا۔ نیکی کا یہ سلسلہ ہی اصل خوشی ہے۔
رحیم نے یہ بات دل میں اتار لی۔ واپسی پر اس کو راستے میں ایک لڑکا روتا دکھائی دیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ لڑکے کی ماں بیمار ہے اور وہ دوا خریدنے کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا لیکن اس کا سارے پیسے چور لے گئے۔ رحیم نے بغیر سوچے اپنی جیب سے پیسے نکال کر لڑکے کو دیے۔ لڑکے کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور وہ دوڑتا ہوا ماں کے پاس پہنچا۔
کچھ دن بعد وہی لڑکا بازار میں ایک بڑھیا کو سامان اٹھاتے دیکھ کر اس کی مدد کے لیے آگے بڑھا۔ بڑھیا نے خوش ہو کر کہا تم نے میری بہت مدد کی ہے۔ تمہاری نیکی مجھے یاد رہے گی۔ یہ دیکھ کر رحیم کو بوڑھے کی بات یاد آئی۔ واقعی نیکی کا ایک چھوٹا سا عمل دوسروں کے دل کو چھو جاتا ہے۔
ایک سال بعد رحیم کا گاؤں سیلاب کی زد میں آ گیا۔ لوگ بے گھر ہو گئے۔ اور مدد کی امید ٹوٹنے لگی۔ اچانک کئی افراد نے امداد کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ ان میں وہ لڑکا بھی تھا جسے رحیم نے مدد دی تھی۔ اس نے اپنی کمائی کا ایک حصہ گاؤں والوں کو دیا۔ دوسری طرف وہ بڑھیا جس کی مدد لڑکے نے کی تھی اس نے اپنے رشتہ داروں کو سیلاب زدگان کی مدد پر آمادہ کیا۔ یوں رحیم کی ایک چھوٹی سی نیکی نے کئی گھروں کی امیدوں کو زندہ کیا۔
اخلاقی سبق
نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔ ہمارا چھوٹا سا اچھا عمل دوسروں کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے۔ جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔تو یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور پورے معاشرے کو تبدیل کر دیتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ دوسروں کے ساتھ احسان کرو کیونکہ نیکی کا پھل کبھی کھٹا نہیں ہوتا۔