Short Story in Urdu with Moral
کم عقل سے بحث کرنا
ایک گاؤں تھا جس کا نام تھا سکون آباد. وہاں ایک بزرگ رہتے تھے جنہیں سب حکیم صاحب کہتے تھے۔ ان کی عمر کے ساتھ ساتھ ان کا علم اور تجربہ بھی بڑھتاچلا گیا تھا۔ لوگ دور دور سے ان کے پاس مشورے لینے آتے، مسئلے حل کرواتے، اور ان کی حکمت بھری باتوں کو سُن کر خوش ہوتے۔ مگر ایک دن ایسا ہوا کہ حکیم صاحب کو ایک ایسے شخص سے واسطہ پڑا جس نے ان کی ساری عقل کو چیلنج کر دیا۔
وہ عجیب و غریب مہمان
ایک صبح جب حکیم صاحب اپنے باغ میں بیٹھے چائے پی رہے تھے، دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر ایک نوجوان کھڑا تھا جس کے چہرے پر اکڑ اور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ اس نے کہا، سُنا ہے آپ بڑے عقلمند ہیں؟ میں بحث کرنا چاہتا ہوں۔
حکیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، بیٹا، بحث کرنے سے تو علم میں اضافہ ہوتا ہےمگر شرط یہ ہے کہ دونوں فریق سمجھدار ہوں۔ نوجوان نے جھلا کر جواب دیا، میں ہر کسی کو ہرا دیتا ہوں آج آپ کی باری ہے۔
ہوا سے لڑائی
نوجوان نے اپنی پہلی دلیل شروع کی: آپ کہتے ہیں ہوا نظر نہیں آتی، مگر میں کہتا ہوں ہوا کچھ بھی نہیں اگر یہ ہوتی تو ہمیں دکھائی دیتی۔
حکیم صاحب نے کہا، بیٹا، ہوا کو محسوس کیا جاتا ہے۔ درختوں کے پتے ہلتی ہے، کشتیاں چلتی ہیں۔
نوجوان نے طنز کیا، پتے ہلتے ہیں تو درختوں کا کمال ہے ہوا کا کیا کام؟
حکیم صاحب نے گہرا سانس لیا۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ بحث بے سمت جا رہی ہے۔
سورج کی چپڑیسی
اگلے دن نوجوان پھر آیا۔ اس بار اس نے کہا، سورج دن بھر آسمان پر گھومتا ہے، مگر رات کو کہاں چھپ جاتا ہے؟
حکیم صاحب نے کہا، بیٹا، زمین اپنے محور پر گھومتی ہے، اس لیے سورج نظر نہیں آتا۔
نوجوان قہقہہ لگا کر بولا، کیا بات کرتے ہیں زمین گھومتی ہے تو ہمیں چکر کیوں نہیں آتا؟ آپ کے پاس تو کوئی منطق ہی نہیں
حکیم صاحب کا فیصلہ
تین دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ نوجوان ہر روز نئی بے تکی دلیلیں لے کر آتا، اور حکیم صاحب صبر سے سمجھانے کی کوشش کرتے۔ مگر جب نوجوان نے یہ کہہ دیا کہ پانی خشک ہو جاتا ہے تو وہ مر جاتا ہے تو حکیم صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اپنی چھڑی اُٹھائی اور کہا
بیٹا، تمہاری عقل کا مرکز تمہارے کان ہیں جو سنتے سب ہیں مگر سمجھتے کچھ نہیں۔ کم عقل سے بحث کرنا ایسے ہی ہے جیسے کنویں کے اندر چاند کو پکڑنے کی کوشش کرنا۔ وقت ضائع ہوتا ہے، اور چاند وہیں رہتا ہے
سبق
نوجوان کو یہ بات چبھ گئی۔ وہ خاموش ہو گیا اور چلا گیا۔ اگلے دن جب وہ لوٹا تو اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ اس نے کہا، حکیم صاحب، میں نے سوچا… شاید آپ ٹھیک کہتے ہیں۔
حکیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، بیٹا، جب تک تم اپنے دل اور دماغ کو کھولو گے نہیں، سچ تمہارے سامنے بھی پردے میں رہے گا۔ کم عقل سے نہیں، اپنی عقل سے لڑو۔
دنیا میں ہر کوئی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے۔ مگر عقلمندی یہ ہے کہ جہاں جہالت کا طوفان ہو، وہاں خاموشی کا سپاہی بن جاؤ۔ کیونکہ بے وقوف سے بحث کرنا اپنے آپ کو اُس کی سطح پر لے جانے کے برابر ہے۔
نوٹ: یہ کہانی انسانی فطرت کی ایک سادہ سی عکاسی ہے۔ اکثر ہم الجھنوں میں پڑ کر اپنا وقت اور توانائی ضائع کر دیتے ہیں۔ حکمت کا
تقاضا یہی ہے کہ ہم جانیں کہ کب بولنا ہے اور کب خاموشی کو ہتھیار بنانا ہے۔
اگر اپ مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر وزیٹ کر لیں